شان صدیق اکبر

شان صدیق اکبر

ایمان افروز خواب

اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے زمانہ جاہلیت کے دور میں ایک نیک سیرت تاجر (یعنی بزنس مین ) ملک شام تجارت (یعنی بزنس) کے لیے گیا، وہاں اُس نے ایک خواب دیکھا، جو ”بحیرا“ نامی راہب کو سنایا۔ اُس راہب نے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو ؟ اُس تاجر نے جواب دیا: ” مکے سے۔“ اُس نے پھر پوچھا: ”کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو ؟ " تاجر نے بتایا: ” قریش سے۔ پوچھا: "کیا کرتے ہو ؟ کہا: تاجر (یعنی بزنس مین ) ہوں۔“ وہ راہب کہنے لگا: ” اگر اللہ پاک نے تمہارے خواب کو سچا فرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا (یعنی بھیجے گا)، اُن کی زندگی میں تم اُن کے وزیر ہو گے اور وصال شریف (Death) کے بعد اُن کے جانشین ہوگے۔ “ اس نیک سیرت تاجر نے اپنا یہ خواب اور اس کی تعبیر کسی کو نہ بتائی جب اسلام کا سورج طلوع ہوا، اللہ کریم کے آخری رسول، رسولِ مقبول ، گلشنِ رسالت کے مہکتے پھول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو اس تاجر کو ملک شام میں دیکھے جانے والے اُس کے خواب اور اُس کی تعبیر کا واقعہ بطور دلیل خود ہی ارشاد فرمادیا جسے سنتے ہی وہ نیک سیرت تاجر حضور صلى الله علیه و آله وسلم کے گلے لگ گیا اور پیشانی مبارک چومتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اُس نیک سیرت تاجر کا کہنا ہے: ”اُس دِن میرے اسلام لانے پر مکہ پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ کوئی خوش نہ تھا۔“

اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت! کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نیک سیرت تاجر کون تھے؟۔ جی ہاں ! یہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ،سب سے بڑے متقی (یعنی پر ہیز گار) جنتی ابنِ جنتی، صحابی ابن صحابی یار غار و یار مزار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔


سب سے زیادہ سعادت مند

سُبُلُ الْهُدَى وَالرَّشَادُ “ میں ہے: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا کہ مکہ پاک میں ایک چاند نازل ہوا ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے وہ چاند پھٹ گیا اور اُس کے ٹکڑے مکہ پاک کے ہر گھر میں داخل ہو گئے ہیں پھر چاند کے ٹکڑے اکٹھے ہو گئے اور وہ چاند آپ کی گود میں آگیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی تعبیر پوچھی تو بتایا گیا کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن کا انتظار ہے ، آپ اُن کی اتباع (Follow) کرنے والے اور لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوں گے۔ پس جب اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا اور آپ کو اسلام کی طرف بلایا تو آپ نے بلا تاخیر فوراً اسلام قبول کر لیا۔ (سبل الهدى والرشاد، 303/2)

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار غار محبوب خُدا صدیق اکبر کا


تعارف

اے عاشقانِ صحابہ واہل بیت ! مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام مبارک عبد الله، کنیت ابو بکر اور صدیق و عتیق القاب ہیں۔ صدیق کا معنی ہے: ” بہت زیادہ سچا۔ “ آپ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت ہی میں اِس لقب سے مشہور ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ سچ ہی بولتے تھے اور عتیق کا معنی ہے: ”آزاد“ اللہ پاک کی عطا سے غیب کی خبریں دینے والے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: " انْتَ عَتِيقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی تم دوزخ کی آگ سے آزاد ہو ۔ “ اس لئے آپ کا لقب عتیق “ ہوا۔ (تاریخ الخلفاء ص (۲۹) آپ رضی اللہ عنہ قریشی ہیں اور ساتویں پشت میں شجرہ نسب رسول الله صلى الله علیہ والہ وسلم کے خاندانی شجرے سے مل جاتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ عام الفیل (یعنی جس سال نامراد ابر بہ بادشاہ ہاتھیوں کے لشکر کے ہمراہ کعبہ مشرفہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کے تقریباً اڑھائی سال بعد مکے شریف میں پیدا ہوئے۔

الہی ! رحم فرما! خادمِ صِدِّیقِ اکبر ہوں تری رحمت کے صدقے ، واسطہ صدیق اکبر کا


حلیہ مبارک

مسلمانوں کی پیاری پیاری آتی جان حضرت بی بی عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ عابدہ عفیفہ رَضِيَ الله عَنْهَا سے پوچھا گیا: ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حلیہ (مبارک) کیسا تھا؟ فرمایا: ” آپ کا رنگ سفید ، جسم کمزور اور رُخسار کم گوشت والے تھے، کمر کی جانب سے تہبند کو مضبوطی سے باندھا کرتے تھے تاکہ لٹکنے سے محفوظ رہے، آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں واضح نظر آتی تھیں، اسی طرح ہتھیلیوں کی پچھلی رگیں بھی  صاف نظر آتی تھیں۔“ (تاریخ الخلفاء، ص ۲۵)

بہتری جس پہ کرے فخر وہ بہتر صدیق سروری جس پہ کرے ناز وہ سرور صدیق


جنت عدن کا حقدار کون

صحابی ابنِ صحابی، جنتی ابنِ جنتی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) پیدا ہوئے تو اللہ پاک نے جنت عدن سے ارشاد فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! تجھ میں صرف انہی لوگوں کو داخل کروں گا جو اس پید اہونے والے (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ) سے محبت رکھے گا۔ (مختصر تاریخ دمشق، 69/13)


زمین سے زیادہ آسمان پر شہرت

جنتی صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت جبریلِ امین (علیه السلام) بارگاہِ رسالت صَلَّى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم میں حاضر ہوئے اور ایک کونے میں بیٹھ گئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم! یہ ابو قحافہ کے بیٹے ہیں۔؟ تو آپ صلی الله عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اے جبریل! کیا تم آسمان میں رہنے والے انہیں پہچانتے ہو ؟“ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) نے عرض کیا: ”اس رب کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا ہے ! ابو بکر زمین کی بہ نسبت آسمانوں میں زیادہ مشہور ہیں اور آسمانوں میں اُن کا نام حلیم“ ہے۔“ (الریاض النضرۃ، ج ۱، ص ۸۲)


عاشق اکبر کا عشق رسول

عظیم تابعی بزرگ حضرت امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم کے ساتھ غارِ ثور کی طرف جارہے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کبھی حضور (صلی الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم) کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے چلتے، حضور صلی اللہ عَلَيْهِ وَالِهِ وَ سَلَّم نے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اُنہوں نے جواب دیا: جب مجھے تلاش کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو میں آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وسلم کے پیچھے ہو جاتا ہوں اور جب گھات میں بیٹھے ہوئے دشمنوں کا خیال آتا ہے تو آگے آگے چلنے لگتا ہوں ، کہ کہیں آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حضور صلی الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَ سَلَّم نے فرمایا: کیا تم خطرے کی صورت میں میرے آگے مرنا پسند کرتے ہو ؟ عرض کی : رَبِّ ذُو الْجَلال کی قسم ! میری یہی آرزو ہے۔ (عاشق اکبر ، ص 31) پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس


دنیا سے بے رغبتی

جنتی صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پینے کے لئے پانی طلب فرمایا تو ایک کٹورے (برتن) میں پانی اور شہد پیش کیا گیا۔ امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اُسے منہ کے قریب کیا تو رو پڑے اور حاضرین کو بھی رلا دیا پھر آپ رضی اللہ عنہ تو خاموش ہو گئے لیکن لوگ روتے رہے۔ (ان کی یہ حالت دیکھ کر) آپ رضی اللہ عنہ پر رقت طاری ہو گئی اور آپ رَضِی اللہ عنہ دوبارہ رونے لگے یہاں تک کہ حاضرین کو گمان ہوا کہ وہ اب رونے کا سبب بھی نہیں پوچھ سکیں گے، پھر کچھ دیر کے بعد جب افاقہ ہوا تو لوگوں نے عرض کی: کس چیز نے آپ کو اس قدر رلایا ؟ امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کے ساتھ تھا کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم اپنے آپ سے کسی چیز کو دور کرتے ہوئے فرمارہے تھے ، مجھ سے دور ہو جا، مجھ سے دور ہو جا، لیکن مجھے آپ کے پاس کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے عرض کی : یارسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَالهِ وَسَلَّم! آپ کسی چیز کو اپنے آپ سے دور فرما رہے ہیں جبکہ مجھے آپ کے پاس کوئی چیز نظر نہیں آرہی ؟ سرکارِ دو جہان صلى الل عَلَيْهِ وَالِهِ  وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: یہ دنیا تھی، جو بن سنور کر میرے سامنے آئی تو میں نے اس سے کہا: مجھ سے دور ہو جا تو وہ ہٹ گئی ۔اس نے کہا: اللہ کی قسم ! آپ صلى الله عَلَيْهِ وَ الهِ وَسَلَّم تو مجھ سے بچ گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے بعد آنے والے نہ بچ سکیں گے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے خوف ہوا کہ دُنیا مجھ سے چمٹ گئی ہے۔ بس اسی بات نے مجھے رُلا دیا۔ (مسند بزار، ۱۹۶/۱، حدیث: ۴۴)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی