شان مولیٰ علی

شان مولیٰ علی


 خدا و مصطفٰی کے محبوب

        حضرت سید نا سَہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا: ”میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ پاک فتح عطا فرمائے گا وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کار سول اس سے محبت فرماتے ہیں۔ “ راوی کہتے ہیں: ” صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے وہ رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ کس خوش نصیب کو سرکار صَلَّى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم جھنڈ اعطا فرمائیں گے ۔ “ صبح حضور نبی اکرم نور مجسم صلى الله عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّم نے فرمایا:” علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہاں ہیں ؟ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اَجْمَعِیْن نے عرض کی: یا رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم وہ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں ۔ “ ارشاد فرمایا: ”انہیں میرے پاس لاؤ ! “ چنانچہ جب آپ رَضِی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے تو سرکار صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَ سَلَّم نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن (تھوک مبارک) لگا یا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔ اس کی برکت سے آپ رَضِی اللہ تعالی عنہ کی آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں اور ایسی ٹھیک ہوئیں گویا کہ کبھی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر رسولِ اکرم صَلَّى الله عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّم نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا، امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله وجهَهُ الکریم نے عرض کی : ”یا رسول اللہ صلی اللہ عَلَيْهِ وَآلہ وسلم ! کیا میں ان لوگوں کے ساتھ اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ؟ “ ارشاد فرمایا: ”نرمی سے کام لو، ان کے پاس پہنچ کر پہلے انہیں اسلام کی طرف بلاؤ پھر انہیں بتاؤ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر اللہ پاک کے کیا حقوق ہیں، اللہ پاک کی قسم ! اگر تمہاری وجہ سے اللہ پاک ایک آدمی کو بھی ہدایت عطا فرمادے ، تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔“ (اللہ والوں کی باتیں، ص141 بحوالہ صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل على بن ابى طالب، الحدیث: ۶۲۲۳ ، ص ۱۱۰۱۔)

شان مولیٰ علی مشکل کشا

    اے عاشقانِ صحابہ و اہلبیت ! مولا علی شیر خدا اللہ پاک اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ، مولا علی شیر خدا قیامت تک کے سیدوں کے والد ، مولا علی شیر خدا دُنیا کے مقابلے میں آخرت سے محبت کرنے والے ، مولا علی شیر خدا ظاہر و باطن کے بہت بڑے عالم اور بہت بڑے مبلغ ، مولا علی شیر خدا پختہ یقین اور اعتماد کے ساتھ درست فیصلے فرمانے والے ، مولا علی شیر خدا متقیوں کے پیشوا، مولا علی شیر خدا وعدہ پورا کرنے والے ، مولا علی شیر خدا دِین کے دُشمنوں سے ڈٹ ، کر مقابلہ کرنے والے اور اُنہیں برباد کرنے والے، مولا علی شیر خدا ایمان والوں کے سردار ، مولا علی شیر خدا بن مانگے عطا فرمانے والے اور بہت زیادہ سخاوت فرمانے والے ہیں۔

نام و نسب و حلیہ مبارک

    امیر المومنین حضرتِ سیدنا مولی علی مُشکل کشا شیر خُدا كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الْكَرِيم  مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیّدہ فاطمہ بنتِ اَسد رضی اللہ عنھا نے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام ”حیدر“ رکھا، والد نے آپ کرمُ اللهُ وَجْهَهُ الْكَرِيمِ کا نام ”علی“ رکھا۔ حُضورِ پر نور شافع یوم النشور صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے آپ كَرمَ اللَّهُ وَجْهَهُ الكَرِیم کو ” أَسَدُ الله (اللہ کا شیر ) کے لقب سے نوازا ، اِس کے عِلاوہ ”مُر تَضٰی (یعنی چنا ہوا“، ”کر ار (یعنی پلٹ پلٹ کر کر حملے کرنے والا)، شیر خُدا“ اور ”مولا مشکل کشاء آپ کرم اللہ وجھہ الکریم کے مشہور القابات ہیں۔ آپ کا مکی مدنی آقا، پیارے پیارے پیارے مُصطفٰے صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم کے چچازاد بھائی ہیں۔ (مراۃ المناجیح ج۸ ص ۴۱۲ و غیر ملخصا، کرامات شیر خدا ،ص:۱۱) خلیفہ چہارم، جانشین رسول، زوج بتول حضرتِ سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللهُ وَجْهَهُ الکریم کی کنیت ” ابو الحسن “ اور ”ابو تراب“ ہے۔

اس نے لقب خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدر کرار، کہ مولیٰ ہے ہمارا (اعلیٰ حضرت)

    آپ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيم ، شہنشاہ ابرار ، مکے مدینے کے تاجدار صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کے چچا جناب ابوطالب کے فرزند ارجمند ہیں۔ عام الفیل کے 30 سال بعد (جب حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف30 برس تھی) 13 رجب المرجب بروز جمعۃ المبارک کو پیدا ہوئے۔ مولیٰ مُشکل کشا حضرتِ سیدنا على المرتضى كرم الله وجهه الكريم کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت سیدہ فاطمہ بنت اسد رَض الله تعالی عنھا ہے۔ آپ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيم 10 سال کی عمر میں ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے اور شہنشاہ نبوت، تاجدارِ رسالت ، شافعِ امت صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کے زیر تربیت رہے اور تادم حیات آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِہ وَسَلَّم کی امداد و نصرت اور دین اسلام کی حمایت میں مصروفِ عمل رہے۔ آپ کرم الله وجهَه الكريم مہاجرین اولین عَشَرَہ مُبَشِّرہ میں شامل ہونے اور دیگر خُصُوصی درجات سے مُشرف ہونے کی بناء پر بہت زیادہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق و غیره تمام اسلامی جنگوں میں اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ شرکت فرماتے رہے اور غیر مسلموں کے بڑے بڑے نامور بہادر آپ کرمُ اللهُ وَجْهَهُ الکریم کے قاہرانہ وار سے واصل نار ہوئے۔(کراماتِ شیر خداص: ۱۲)

    امیر المومنین حضرت سیدنا عثمانِ غنی رَضِی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد انصار و مہاجرین نے دست بابرکت پر بیعت کر کے آپ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيمِ کو امیر المومنین منتخب کیا اور 4 برس 8 ماه 9 دن تک مسند خلافت پر رونق افروز رہے۔ 17 یا 19 رمضان المبارک کو ایک بد بخت کے قاتلانہ حملے سے شدید  زخمی ہو گئے اور 21 رمضان شریف یک شنبہ (اتوار) کی رات جام شہادت نوش فرما گئے۔ (تاریخ الخلفاء ص ۱۳۲، اسد الغابۃ ج ۴ ص۱۲۸ ، ۱۳۲ ، ازالۃ الخفاء ج ۴، ص ۴۰۵، معرفۃ الصحابۃ ج اص ۱۰۰ وغیره، کرامات شیر خدا، ص: ۱۱)
اصل نسل صفا، وجہ وصل خدا
باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام (اعلیٰحضرت)

    آپ کا قد مبارک نہ زیادہ لمبا اور نہ زیادہ چھوٹا تھا بلکہ آپ میانہ قامت تھے، آپ کی آنکھیں بڑی بڑی اور چہرہ مبارک انتہائی خوبصورت تھا جیسے چودہویں کا چاند۔ حضرت علی کرم الله وَجْهَهُ الْكَرِيمِ کے دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ کی ہتھیلیاں اور کندھوں کی ہڈیاں بھاری تھیں اور آپ کی گردن مُبارک چاندی کی صراحی جیسی تھی، آپ کے سر مبارک پر بال پیشانی پر نہیں بلکہ پیچھے کی طرف تھے ، آپ کی داڑھی مبارک گھنی تھی جس کا ہر بال بغیر خضاب کے سیاہ تھا۔ آپ کے بازو اور ہاتھ سخت مضبوط تھے۔ (الریاض النضرة، ج ۳، ص ۱۰۷-۱۰۸)

مرتضیٰ شیر خدا، مرحب کشا، خیبر کشا
سرورا، لشکر کشا، مشکل کشا، امداد کن (اعلیٰحضرت)

شیر خدا کا بچپن

    پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم مولی علی مُشکل کشا، شیر خدا کرمَ اللهُ وَجْهَهُ الکریم کا بچپن دیکھیں تو وہ بھی بے نظیر و بے مثال تھا ، آپ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ بچپن ہی سے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل فرماتے ۔ رحمت دو عالم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے آپ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کی کفالت فرمائی، بچپن ہی میں اسلام لائے ، چھوٹی سی عمر میں نیکی کی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس راہ میں آنے والی رُکاوٹیں آپ کی تربیت کا حصہ بنیں۔ شیرِ خدا رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ کے مُبارک بچپن کا ایک خُوب صورت گوشہ ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ

شیر خُدا کی پہلی غذا:

    آپ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت اسد رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْھا کا بیان ہے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الكريم جب پیدا ہوئے تو آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے اُن کا نام علی رکھا اور اپنا لُعاب آپ کے منہ میں ڈالا اور اپنی زبان انہیں چوسنے کے لئے دی تو آپ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الْكَرِيم زَبانِ مبارک کو چوستے ہوئے نیند کی آغوش میں چلے گئے، جب اگلا دن آیا تو ہم نے آپ کرمَ اللهُ وَجْهَهُ الکریم کو دودھ پلانے کے لئے ایک دائی کو بلایا، لیکن آپ نے دُودھ نہیں پیا، جب اس بات کی خبر رحمت عالم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کو دی گئی تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے تشریف لا کر اپنی زبانِ اطہر آپ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کے ذہن میں ڈالی، حضرت سیدنا علی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الْكَرِيم زبانِ اقدس کو چوسنے لگے، چوستے ہوئے پھر نیند کی آغوش میں چلے گئے، پس جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے چاہا اسی طرح کا معاملہ ہو تا رہا۔ (السیرة الحلبية، ج ۱، ص ۳۸۲)

شانِ علی احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

    پیارے اسلامی بھائیو!  متعدداحادیث مبار کہ میں نبی اکرم ، نورِ مجسم صلی اللہ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے آپ كَرَّمَ الله وجهه الکریم کی جو شان بیان فرمائی ہے آئیے ! اُن میں سے چند فرامین مصطفیٰ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ سُنتے ہیں۔ چنانچہ

(1) سرکار صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے حضرت علی سے فرمایا: انْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِی، یعنی تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ (عَلَيْهِ السَّلام) کے نزدیک ہارون (عَلَيْهِ السَّلام) کا مقام تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مسلم ،ص:۱۳۱۰، حدیث:۲۴۰۴)

(2) عَلِي مَنِي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي مِنْ بَدَنِ، یعن علی کا تعلق مجھ سے ایسا ہی ہے جیسا میرے سر کا تعلق میرے جسم سے ہے۔ (کنز العمال ،۶ /۲۷۷، حدیث:۳۲۹۱۱)

(3) أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِى بَابُھا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔(ترمذی ،۵ ص: ۴۰۲، حدیث: ۳۷۴۴)

    اِسی طرح امیر المومنین، امام العادلين حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ ارشاد فرماتے ہیں: حضرت علی المُرتَضَى كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيمِ کو تین (3) ایسی فضیلتیں حاصل ہیں کہ اگر ان میں سے ایک (1) بھی مجھے نصیب ہو جاتی تو وہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی محبوب تر ہوتی۔ صحابہ کرام نے پوچھا: وہ تین (3) فضائل کون سے ہیں؟ کون سے ہیں؟ فرمایا : (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب حبيب لبیب صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا کو ان کے نکاح میں دیا (۲) ان کی رہائش رسولِ کریم صلى الله عَلَيْهِ وَالِلهِ وَسَلَّم کے ساتھ مسجد النبوي الشریف میں تھی اور ان کے لئے مسجد میں وہ کچھ حلال تھا جو انہیں کا حصہ ہے اور (۳) غزوہ خیبر میں ان کو پرچم اسلام عطا فرمایا گیا۔ (مستدرک ج۴ ص ۹۴ حدیث ۴۶۸۹) سیدنا فاروقِ اعظم رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ حضرت علی (رَضِی اللهُ تَعَالٰی عَنْهُ ) ہم میں سب سے بڑے قاضی اور حضرت اُبی بن کعب ) رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ ) ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ، ج ۸، ص ۶ ، ح ۲۱۱۴۳، کرامات شیر خدا، ص: ۲۲)

    اِسی طرح امیر المومنین، امام العادلين حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ ارشاد فرماتے ہیں: حضرت علی المُرتَضَى كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيمِ کو تین (3) ایسی فضیلتیں حاصل ہیں کہ اگر ان میں سے ایک (1) بھی مجھے نصیب ہو جاتی تو وہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی محبوب تر ہوتی۔ صحابہ کرام نے پوچھا: وہ تین (3) فضائل کون سے ہیں؟ کون سے ہیں؟ فرمایا : (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب حبيب لبیب صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا کو ان کے نکاح میں دیا (۲) ان کی رہائش رسولِ کریم صلى الله عَلَيْهِ وَالِلهِ وَسَلَّم کے ساتھ مسجد النبوي الشریف میں تھی اور ان کے لئے مسجد میں وہ کچھ حلال تھا جو انہیں کا حصہ ہے اور (۳) غزوہ خیبر میں ان کو پرچم اسلام عطا فرمایا گیا۔ (مستدرک ج۴ ص ۹۴ حدیث ۴۶۸۹) سیدنا فاروقِ اعظم رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ حضرت علی (رَضِی اللهُ تَعَالٰی عَنْهُ ) ہم میں سب سے بڑے قاضی اور حضرت اُبی بن کعب ) رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ ) ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ، ج ۸، ص ۶ ، ح ۲۱۱۴۳، کرامات شیر خدا، ص: ۲۲)

محبت علی کا تقاضا


        امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی، شیر خداکرم اللهُ تَعَالَى وَجْهَهُ الکریم نے فرمایا: رسولِ کریم ، رَءُوفٌ رَّحیم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کے بعد سب سے بہتر ابو بکر و عمر ہیں پھر فرمایا: " لَا يَجْتَمِعُ حبى وَبُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَفي قَلْبِ مُؤْمِنٍ یعنی میری محبت اور ( شَيْخَيْنِ كَرِيْمَيْن) ابو بکر و عمر کا بغض کسی موسن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی جلد ۳ - ص ۷۹ حدیث ۳۹۲۰، کراماتِ شیر خدا، ص:۲۵) سُبْحٰنَ الله عَزَّ وَجَلَّ ! گویا کہ مولا علی كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ الْكَرِيمِ خود فرمارہے ہیں کہ اگر مجھ سے محبت کرنے کا دعوی ہے تو شیخین کریمین سے بھی محبت کرنا ہو گی ورنہ میری محبت کوئی فائدہ نہ دے گی۔ اللہ پاک ہمیں تمام خلفائے عظام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالى عنهم اجمعین سے محبت کرنے اور ان کا ادب و احترام بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاه النبي الأمين صلى الله تَعَلى عَلَيْهِ وَاله و سلم

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی