خواجہ غریب نواز

خواجہ غریب نواز

 عرصہ دراز سے پاک و ہند الله عاد جل کے نیک بندوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ مختلف ادوار میں یکے بعد دیگرے بے شمار اولیائے کبار عَلَيْهِ الرحمۃ والرضوان نے ہند کا رخ کیا اور لوگوں کو نہ صرف دین اسلام کی دعوت دی بلکہ کفر و شرک کی تاریکیوں میں بھٹکنے والے ان گنت غیر مسلموں کو اللہ عزوجل کی وحدانیت اور پیارے آقا صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت سے آگاہ کر کے انہیں دائرہ اسلام میں داخل بھی فرمایا۔ تاج الاولیاء، سید الاصفیاء، وارث النبی، عطائے رسول، سُلطان الهند، حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز سید معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری عَلَیهِ رَحمَةُ اللهِ القوی کا شمار بھی انہی بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ رحمةُ الله تَعَالٰی علیہ چھٹی صدی ہجری میں ہند تشریف لائے اور ایک عظیم الشان روحانی و سماجی انقلاب کا باعث بنے حتی کہ ہند کا ظالم و جابر حکمران بھی آپ کی شخصیت سے مرعوب ہو کر تائب ہوا اور عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا۔ آئیے ! خواجہ غریب نواز رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ علیہ کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو ملاحظہ کیجئے۔


ولادت باسعادت

حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز سید معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری عَلَيْهِ رَحمَةُ اللهِ الْقَوِی ۵۳۷ ھ بمطابق 1142ء میں سجستان یا سیستان کے علاقہ "سنجر" میں پیدا ہوئے۔

نام اور سلسلہ نسب

آپ رَحْمَةُ الله تَعَلیٰ عَلَیہ کا اسم گرامی حسن ہے اور آپ نجیب الطرفین حسنی و حسینی سید ہیں۔ آپ کے کے القاب بہت زیادہ ہیں مگر مشہور و معروف القاب میں معین الدین، خواجہ غریب نواز ، سُلطان الہند ، وارث النبی اور عطائے رسول وغیرہ شامل ہیں آپ کا سلسلۂ نسب سید معین الدین حسن بن سید غیاث الدین حسن بن سید نجم الدین طاہر بن سید عبد العزیز ہے۔

والدین کریمین

آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْه کے والد ماجد سید غیاث الدین رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْه جن کا شمار سنجر کے امیر اور رئیس لوگوں میں ہوتا تھا انتہائی متقی و پرہیز گار اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔ نیز آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ عَلَیہ کی والدہ ماجدہ بھی اکثر اوقات عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے والی نیک سیرت خاتون تھیں۔ جب حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رَحمةُ اللهِ تَعَلیٰ عَلَیہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچے تو والد محترم کا وصال پُر ملال ہو گیا۔ وراثت میں ایک باغ اور ایک پَن چکی ملی آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ علیہ نے اسی کو ذریعہ معاش بنالیا اور خود ہی باغ کی نگہبانی کرتے اور درختوں کی آبیاری فرماتے۔

حصول علم کے لئے سفر

حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعال علیہ نے 15 برس کی عمر میں حصول علم کے لیے سفر اختیار کیا اور سمرقند میں حضرت سیدنا مولانا شرف الدین عَلَيْهِ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر با قاعدہ علم دین کا آغاز کیا۔ پہلے پہل قرآن پاک حفظ کیا اور بعد ازاں انہی سے دیگر علوم حاصل کئے۔ مگر جیسے جیسے علم دین سیکھتے گئے ذوقِ علم بڑھتا گیا، چنانچہ علم کی پیاس کو بجھانے کے لئے بخارا کارخ کیا اور شہرہ آفاق عالم دین مولانا حسام الدین بخاری عَلَيْهِ رَحمة کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور پھر انہی کی شفقتوں کے سائے میں آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْہ نے تھوڑے ہی عرصے میں تمام دینی علوم کی تکمیل کرلی۔ اس طرح آپ رَحْمَةُ الله تعالیٰ علیہ نے مجموعی طور پر تقریبا پانچ سال سمر قند اور بخارا میں حصولِ علم کے لئے قیام فرمایا۔ اس عرصے میں علوم ظاہری کی تکمیل تو ہو چکی تھی مگر جس تڑپ کی وجہ سے گھر بار کو خیر باد کہا تھا اس کی تسکین ابھی باقی تھی۔ چنانچہ کسی ایسے طبیب حاذق (ماہر) کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جو درد دل کی دوا کر سکے۔ چنانچہ مرشد کامل کی جستجو میں بخارا سے حجاز کا رخت سفر باندھا راستے میں جب نیشا پور (صوبہ خراسان ایران) کے نواحی علاقے ” ہارون“ سے گزر ہوا اور مرد قلندر قطب وقت حضرت سیدنا خواجہ عثمان بارونی چشتی عَلَيْهِ رَحمَةُ اللهِ کا شہرہ سنا تو فوراً حاضر خدمت ہوئے اور ان کے دست حق پرست پر بیعت کر کے سلسلہ چشتیہ میں داخل ہو گئے

بارگاہ الٰہی میں مقبولیت

ایک بارحج کے موقع پر حضرت سیدنا خواجہ عثمان ہارونی عَلَيْهِ رَحمَةُ اللهِ الغَنِنی نے میزاب رحمت کے نیچے آپ رَحْمَةُ الله تعالی علیہ کا ہاتھ پکڑ کر بارگاہ الہی میں دُعا کی: اے مولٰی میرے معین الدین حسن کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔ غیب سے آواز آئی: معین الدین ہمارا دوست ہے، ہم نے اسے قبول کیا۔

بارگاہ رسالت سے ہندوستان کی سلطانی 

بار گاہِ رسالت میں خواجہ معین الدین عَلَيْهِ رَحمَةُ اللهِ علیہ کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سید نا خواجہ معین الدین عَلَيْهِ رَحمَةُ الله علیہ کو مدینے شریف کی حاضری کا شرف ملا تو نہایت ادب واحترام کے ساتھ یوں سلام عرض کیا: " الصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ “ اس پر روضہ اقدس سے آواز آئی وَ عَلَيْكُمُ السَّلامُ يَا قُطْبَ الْمَشَائِخ نیز حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْہ کو ہند کی سلطانی بھی بارگاہِ  رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ وسلم ہی سے عطا ہوئی۔ چنانچہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا خواجہ خواجگان، سُلطان الهند حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز حسن سنجری عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ علیہ کو مدینہ منورہ کی حاضری کے موقع پر سید المرسلین، حاتم النَّبِيِّينَ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کی طرف سے یہ بشارت ملی : ”اے معین الدین تو ہمارے دین کا معین (یعنی دین کا مددگار ) ہے ، تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی، اجمیر جا، تیرے وجود سے بے دینی دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہو گا

سلطان الہند کا سفر ہند

آپ رَحْمَةُ الله تَعَالٰی عَلَيْہ اس بشارت کے بعد ہند روانہ ہوئے اور سمر قند، بخارا، عروس البلاد بغداد شریف، نیشاپور، تبریز، اوش، اصفهان، سبزوار، خراسان، خرقان، اِشتر آباد، بلخ ور غزنی وغیرہ سے ہوتے ہوئے ہند کے شہر اجمیر شریف (صوبہ راجستھان) پہنچے اور اس پورے سفر میں آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سینکڑوں اولیاء اللہ اور اکابرین امت سے ملاقات کی۔ چنانچہ

ہم عصر علماء اور اولیاء سے ملاقات

آپ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ بغداد معلٰی میں حضرت سیدنا غوثِ اعظم محی الدین سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پانچ ماہ تک بارگاہِ غوثیہ سے اکتساب فیض کیا۔ تبریز میں شیخ بدر الدین ابوسعید تبریزی عَلَيْهِ رَحمَةُ اللہِ علیہ کی بارگاہ سے علم کی میراث حاصل کی۔ اصفہان میں شیخ محمود اصفہانی علیہ الرحمہ کے پاس حاضر ہوئے اور خرقان میں شیخ ابوسعید ابوالخیر اور خواجہ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمہ کے مزارات پر حاضری دی۔ اِستر آباد میں حضرت علامہ شیخ ناصر الدین اشتر آبادی عَلَيْهِ الرَحمة سےکسبِ فیض کیا۔ ہرات میں شیخ الاسلام امام عبدالله انصاری عَلَيْهِ رَحمۃ کے مزار کی زیارت کی اور بلخ میں شیخ احمد خضرویہ رحمہ اللہ تَعَالٰی علیہ کی خانقاہ میں قیام فرمایا

داتا کی بارگاہ میں خواجہ کی کی حاضری 

اسی سفر میں آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ القوی کے مزار اقدس پر نہ صرف حاضری دی بلکہ مراقبہ بھی کیا اور حضرت سیدنا داتا گنج بخش رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْہ کا خُصُوصی فیض حاصل کیا۔ مزارِ پُر انوار سے رخصت ہوتے وقت داتا گنج بخش رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ علیہ کی عظمت و فیضان کا بیان اس شعر کے ذریعے کیا:

گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

یعنی گنج بخش داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کا فیض سارے عالم پر جاری ہے اور آپ نورِ خدا کے مظہر ہیں آپ کا مقام یہ ہے کہ راہِ طریقت میں جو ناقص ہیں ان کے لیے پیر کامل اور جو خود پیر کامل ہیں ان کے لیے بھی راہنما ہیں۔

فرمان غوث اعظم پر سر جھکا دیا

جس وقت حضرت سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغداد مقدس میں ارشاد فرمایا : قدمي هذه على رقبة كُلِّ وَلِي الله یعنی میرا یہ قدم الله عزوجل کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔ تو اس وقت خواجہ غریب نواز سیدنا معین الدین چشتی اجمیری عَلَيْهِ رَحمة الله القوى اپنی جوانی کے دنوں میں ملک خراسان میں واقع ایک پہاڑی کے دامن میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ نے یہ فرمانِ عالی سنا تو اپنا سر جھکا لیا اور فرمایا: ”بَلْ قَدَمَات على رأسي وعيني بلکہ آپ کے قدم میرے سر اور آنکھوں پر ہیں۔

سجادہ نشین اور خلفاء 

حضور سیدی خواجہ غریب نواز رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ عَلَیْہ کے خلفا میں سب سے قریبی اور محبوب حضرت سید نا قطب الدین بختیار کاکی عَلَيْهِ رَحمَةُ اللهِ علیہ تھے۔ خواجہ صاحب رَحْمَةُ الله تَعَالیٰ عَلَیْہ کے وِصالِ ظاہری کے بعد آپ ہی سجادہ نشین ہوئے۔ان کے علاوہ دیگر جلیل القدر خلفاء میں حضرت قاضی حمید الدین ناگوری ، سلطان التارکین حضرت شیخ حمید الدین صوفی اور حضرت شیخ عبد الله بیابانی (سابقہ اجے پال جوگی) رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِمْ أَجْمَعِیْن کا شمار ہوتا ہے۔

وصال پر ملال

آپ رَحْمَةُ الله تعالی علیہ کے وصال کی شب بعض بزرگوں نے خواب میں اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: میرے دین کا معین حسن سنجری آرہا ہے میں اپنے مُعینُ الدّین کے استقبال کے لیے آیاہوں۔ چنانچہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بمطابق 16 مارچ 1236ء بروز پیر فجر کے وقت محبین انتظار میں تھے کہ پیرومر شد آکر نماز فجر پڑھائیں گے مگر افسوس! ان کا انتظار کرنا بے سود رہا۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد جب خواجہ غریب نواز رحمةُ اللهِ تَعَالیٰ عَلَیہ کے حجرے شریف کا دروازہ کھول کر دیکھا گیا تو غم کا سمندر اُمنڈ آیا، حضرت سیدنا خواجہ خواجگان سلطان الہند معین الدین حسن چشتی اجمیری عَلَيْهِ رَحمَةُ اللهِ القوى وصال فرما چکے تھے۔ اور دیکھنے والوں نے یہ حیرت انگیز و روحانی منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالیٰ عَلَیہ کی نورانی پیشانی پر یہ عبارت نقش تھی: حَبِیْبُ اللهِ مَاتَ فِيْ حُبِّ اللہ (یعنی اللہ کا محبوب بندہ اللہ کی محبت میں وصال فرما گیا)

مزار مبارک اور عرس

سلطان الہند خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری عَلَيْهِ رَحم الله علیہ کا مزار اقدس ہند کے مشہور شہر اجمیر شریف (صوبہ راجستھان شمالی ہند) میں ہے۔ جہاں ہر سال آپ کا عرس مبارک ۲ رجب المرجب کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اسی تاریخ کی نسبت سے عُرس مبارک کو ” چھٹی شریف“ بھی کہا جاتا ہے اس عرس میں ملک و بیرون ملک سے ہزاروں افراد بڑے جوش و جذبے سے شرکت کر کے خواجہ غریب نواز رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی